1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خلا میں سٹیلائٹس کا ٹکراؤ ایک معمول بن سکتا ہے؟

10 ستمبر 2023

اسپیس مشن اور سٹیلائٹ خلا میں بھیجنے میں تیزی آرہی ہے، جس سے زمین کے گرد مدار میں خلائی کچرا ایک سنگین صورتحال اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق زمین کے مدار میں تقریبا 12 ہزار ٹن ماس کے اجسام گردش میں ہیں۔

https://p.dw.com/p/4W4yl
Schrottplatz Weltraum
تصویر: picture alliance/ESA/dpa

گزشتہ ماہ روس اور بھارت کے چاند مشنز عالمی خلائی خبروں کا مرکز رہے۔ روس کا چاند مشن ناکامی سے دوچار ہوا جبکہ بھارت چندریان تھری کی کامیاب لیڈنگ اور دو ہفتے کی تحقیق کے بعد پراگیان لینڈر کو سلیپنگ موڈ پر ڈال چکا ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ دو ہفتے بعد جب چاند کے اس حصے پر سورج طلوع ہوگا تو لینڈر جاگ کر مزید دو ہفتے تحقیق کر سکے گا۔ 

چند دن کے وقفے کے ساتھ بھارت نے کامیابی کے ساتھ اپنا سولر مشن "ادیتیا" بھی لانچ کیا ہے۔ ان مشنز کے ساتھ بھارت ایک بڑی خلائی طاقت بن کر ابھرا ہے اور دنیا بھر میں پرائیویٹ سپیس کمپنیوں سے متعلق بھارت کی پالیسی کو سراہا جا رہا ہے، جنہوں نے حالیہ دونوں مشنز کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ 

لیکن عالمی خلائی دوڑ پر نظر رکھنے والے ماہرین شدید تشویش کا شکار بھی ہیں۔ یورپی اسپیس ایجنسی کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق فی الوقت ایک ملین سے زائد اجسام زمین کے گرد مدار میں گردش کر رہے ہیں۔ جبکہ ملی میٹر سائز کے چھوٹے ٹکڑوں کی تعداد 130 ملین ہے، جنہیں سائنسی اصطلاح میں خلائی کچرا یا سپیس ڈیبریز کہا جاتا ہے۔

   

ESA Pressebilder - Müll im Weltraum
زمین کے مدار میں تقریبا 12 ہزار ٹن ماس کے اجسام گردش میں ہیںتصویر: ESA–David Ducros, 2016

ایک اور مستند اعداد و شمار کے مطابق زمین کے مدار میں تقریبا 12 ہزار ٹن ماس کے اجسام گردش میں ہیں، جو آئفل ٹاور کے کل وزن سے بھی کہیں زیادہ ماس ہے۔ خلائی کچرے کی تعداد اس قدر بڑھ چکی ہے کہ عالمی خلائی مرکز اور دیگر انسان بردار خلائی مشنز کسی ممکنہ ٹکراؤ سے بچنے کے لیے وقتا فوقتا اپنا مدار تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ 

 

خلا میں ٹکراؤ کا پہلا واقعہ کب ہوا؟

خلا میں دو سٹیلائٹس کے درمیان ٹکراؤ کا پہلا واقعہ 2009ء میں ہوا جب امریکہ کا اریڈیم سٹیلائٹ روس کے کوسموس سٹیلائٹ سے حادثاتی طور پر ٹکرایا، جس کے نتیجے میں دونوں سٹیلائٹ تباہ ہو گئے تھے۔ اس حادثے کے بعد ناسا نے اسپیس ڈیبریز کے دو بادل خلا میں ڈیٹیکٹ کیے تھے، جن میں چھوٹے بڑے سائز کی 500 ڈیبریز شامل تھیں۔ 

اسی طرح 2013ء کے اوائل میں روس کا ایک سٹیلائٹ چین کے سٹیلائٹ کے ٹکڑوں کے ساتھ ٹکرا کر تباہ ہوا۔ چین نے اپنے اس ناکارہ سٹیلائٹ کو چھ سال پہلے خلا میں راکٹ سے تباہ کیا تھا ۔

 

 کیسلر کیسکیڈ سائنڈرم کیا ہے؟

خلائی میں بڑھتے ہوئے خلائی کچرے سے پیدا شدہ سنگین صورتحال کا تصور نیا نہیں ہے۔ اسے سب سے پہلے 1978ء میں "کولیشن فریکوئینسی آف آرٹیفیشل سٹیلائٹس اینڈ سپیس ڈیبریز"  کے نام سے ایک تحقیقی مقالے میں پیش کیا گیا تھا۔ اس تحقیق کے مصنف ڈونلڈ کیسلر اور بورٹن کور پالیس تھے۔

تحقیق کے مطابق خلا میں بھیجے جانے والے سٹیلائٹس کا ٹکراؤ ایک چین ری ایکشن کی طرح ہے۔ یہ زمین کی فضا میں ہونے والے دو طیاروں کے ٹکراؤ جیسا نہیں ہے، جن کے ٹکڑے کشش ثقل کے باعث زمین پر آ گرتے ہیں۔ بلکہ اسپیس کرافٹس، راکٹ یا سٹیلائٹس کے تمام چھوٹے بڑے سائز کے ٹکڑے خلا میں مسلسل گردش میں ہیں۔ یہ ٹکڑے آپس میں ٹکرا کر مزید چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں یا پھر زمین کے ماحول کی حدت سے جل کر ختم ہو جاتے ہیں۔

اس تحقیق کے مطابق مستقبل میں خلائی دوڑ میں تیزی سے پیش رفت کے ساتھ ایک وقت ایسا بھی آئے گا، جب زمین کے گرد مدار خلائی کچرے سے مکمل طور پر ڈھک جائے گا اور سٹیلائٹس کا آپس میں ٹکراؤ ایک معمول ہوگا۔ اس صورتحال کو "کیسلر کیسکیڈ سنڈروم‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔

Donald J Kessler
"کولیشن فریکوئینسی آف آرٹیفیشل سٹیلائٹس اینڈ سپیس ڈیبریز" نامی مقالے کے مصنف ڈونلڈ کیسلر اور بورٹن کور پالیس تھے۔تصویر: DW/C. Dillon

خلائی ٹریفک میں اضافہ 

جان ایل کریسیڈیس ایسی متعدد فیڈرل ایجنسیز کے ساتھ کام کرتے ہیں، جو خلائی کچرے کو مانیٹر کر رہی ہیں۔ کریسیڈیس بتاتے ہیں کہ زیادہ خلائی کچرا سٹیلائٹس اور راکٹس کا ہے، جنہیں خلائی مشن بھیجنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جبکہ سب سے زیادہ کچرا ناکارہ ہوجانے والے سٹیلائٹس کو زمین سے راکٹ فائر کر کے تباہ کر نے سے پھیلا ہے۔  

ان کے مطابق 2007ء میں جب چین نے اپنے ایک موسمی سٹیلائٹ کو راکٹ فائر کر کے تباہ کیا تو خلائی کچرے میں 25 فیصد اضافہ ہوا تھا۔ کراسیڈ س مزید کہتے ہیں کہ موجودہ دور میں اسپیس ایکس اور دیگر پرائیویٹ کمپنیوں کے سٹیلائٹس اور خلائی مشنز میں تیزی سے اضافے کے ساتھ ان اسپیس ڈیبریز کو مانیٹر کرنا بہت ضروری ہوگیا ہے۔

کریسیڈیس کے مطابق یہ ڈیبریز تقریبا 17 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین کے گرد مدار میں مسلسل گردش میں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سادہ انداز میں اسے یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر دو کاریں ایک ہی سمت میں سترہ ہزار میل گی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ رہی ہوں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن اگر یہ دو مخالف سمت سے کسی "ٹی بون انٹرسیکشن" پر اسی رفتار کے ساتھ آپس میں ٹکرا جائیں تو یقینا یہ ایک بد ترین حادثہ ہوگا۔ 

 

کیسلر کیسکیڈ سے بچاؤ کے لیے یورپی اسپیس ایجنسی کا مشن 

زمین کے مدار کے گرد خلائی کچرے کی ایک دبیز تہہ بن جانے کی صورتحال کو اس سے پہلے "گریویٹی" اور "پلینٹس مانگا" میں بہت خوبصورتی سے فلمایا گیا ہے۔ ان فلموں میں دکھایا گیا کہ خلا میں محفوظ سفر خلائی کچرے کے باعث ممکن نہیں رہا۔   

جان ایل کریسیڈیس کہتے ہیں کہ حالیہ چند برسوں میں دنیا بھر میں خلائی مشن میں تیزی آئی ہے۔ بھارت، یو اے ای، چین کے بعد آسٹریلیا نے بھی چاند پر مشن بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ اس بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل نہیں کہ اگر خلائی کچرے کے سدباب کے لیے فوری کوششیں نہیں کی گئیں تو جلد ہی کیسلر کیسکیڈ سنڈروم کا سامنا  ہو سکتا ہے۔ 

ماہرین کے مطابق یہ زمین پر گلوبل وارمنگ سے پیدا شدہ صورتحال کی طرح ہے، جس سے ہونے والی تبدیلیوں کو ریورس کرنا انسان کے لیے ممکن نہیں ہو گا۔ مگر احتیاطی تدابیر اور مدار کی صفائی صورتحال کی سنگینی کو کم ضرور کر سکتے ہیں۔ 

زمین کے گرد مدار کی صفائی کے لیے یورپی اسپیس ایجنسی 2026ء تک سوئس سٹارٹ اپ کی مدد سے "کلیئر سپیس" کے نام سے ایک سٹیلائٹ بھیجنے کی پلاننگ کر رہی ہے۔ اس مشن کا مقصد بڑے سائز کی خطرناک ڈیبریز کو پکڑ کر انہیں زمین کے گرد مدار سے باہر نکالنا ہے۔ اگرچہ چھوٹے سائز کے ٹکڑے پھر بھی مسائل کا سبب بنے رہیں گے۔ 

دوسری جانب بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ جس طرح دنیا بھر میں خلائی مشن اور سٹیلائٹس بھیجنے میں تیزی آئی ہے قوی امید ہے کہ 2026ء میں لانچ تک خلا میں اتنا زیادہ کچرا ہو کہ یہ سٹیلائٹ خود اس کی زد میں آ سکتا ہے۔ کئی ماہرین کے خیال میں زمین کے گرد مدار کی صفائی فوری طور پر شروع کی جانی چاہیے اور اس حوالے سے چین اور روس سامنے آئیں، جنہوں نے خلا میں سب سے زیادہ کچرا پھیلایا ہے۔ 

سولر مشن سے بھارت کو کوئی فائدہ بھی ہو گا کیا؟