1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستسعودی عرب

سعودی عرب کے ساتھ جوہری معاہدہ، بائیڈن سے احتیاط کا مطالبہ

2 مئی 2024

ایک امریکی ڈیموکریٹک سینیٹر نے صدر جو بائیڈن پر زور دیا ہے کہ وہ سعودی عرب کے ساتھ ممکنہ جوہری معاہدے میں جوہری عدم پھیلاؤ جیسی احتیاطی تدابیر لازمی اختیار کریں۔

https://p.dw.com/p/4fQAb
امریکی صدر جو بائیڈن
امریکی صدر جو بائیڈنتصویر: Stringer/SNA/IMAGO

سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان امریکی ثالثی میں تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کسی ممکنہ معاہدے کے لیے اس بات کا بھی امکان ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان جوہری توانائی کا معاہدہ بھی شامل ہو گا۔

امریکہ کے ایک ڈیموکریٹک سینیٹر نے صدر جو بائیڈن پر زور دیا ہے کہ وہ سعودی عرب کے ساتھ جوہری توانائی کے ایسے کسی بھی معاہدے میں جوہری عدم پھیلاؤ کے سخت حفاظتی اقدامات کو بھی شامل کریں۔

فلسطینی ریاست کی تشکیل کے بغیر اسرائیل تسلیم نہیں، سعودی عرب

سعودی عرب کے شاہ سلمان کا غزہ میں فائر بندی کا مطالبہ

خیال رہے کہ بائیڈن انتظامیہ گزشتہ برس اکتوبر سے پہلے سے ہی سعودی عرب اور اسرائیل کے ساتھ ممکنہ امن معاہدے پر بات چیت کر رہی ہے۔ سات اکتوبر کو اسرائیل کے اندر حماس کے حملے کے بعد سے جاری غزہ جنگ کے دوران بھی بات چیت کا سلسلہ جاری رہا ہے۔

سعودی عرب کو جوہری توانائی کے حصول میں مدد کے معاہدے سے امریکی جوہری صنعت کو فائدہ ہو سکتا ہے جو ٹیکنالوجی فراہم کرے گی۔

ایک امریکی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ریاض کے ساتھ مذاکرات اب بھی جاری ہیں۔

 امریکی سینیٹر ایڈورڈ مارکی
سعودی عرب ''انسانی حقوق کا ایک خوفناک ریکارڈ رکھنے والا ملک ہے‘‘ جس پر یہ بھروسہ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اپنے جوہری پروگرام کو خالصتاً پرامن مقاصد کے لیے استعمال کرے گا اور جوہری ہتھیار تیار کرنے کی کوشش نہیں کرے گا، امریکی سینیٹر ایڈورڈ مارکیتصویر: Taiwan Presidential Office/REUTERS

سینیٹر ایڈورڈ مارکی نے، جو طویل عرصے سے جوہری عدم پھیلاؤ کے تحفظ کے حامی رہے ہیں، اپنے ساتھی ڈیموکریٹک صدر جو بائیڈن کو لکھے گئے ایک خط میں کہا ہے کہ سعودی عرب ''انسانی حقوق کا ایک خوفناک ریکارڈ رکھنے والا ملک ہے‘‘ جس پر یہ بھروسہ نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اپنے جوہری پروگرام کو خالصتاً پرامن مقاصد کے لیے استعمال کرے گا اور جوہری ہتھیار تیار کرنے کی کوشش نہیں کرے گا۔

مارکی اور دیگر ڈیموکریٹس سعودی عرب اور اس مملکت کے حقیقی حکمران سمجھے جانے والے شہزادہ محمد بن سلمان کے انسانی حقوق کے ریکارڈ، یمنی خانہ جنگی میں مداخلت اور واشنگٹن پوسٹ کے ایک کام نگار جمال خاشقجی کے قتل کے تناظر میں شدید ناقد ہیں۔ خاشقجی کے قتل کے بارے میں امریکی خفیہ ایجنسی کا اندازہ ہے کہ اس کا حکم خود شہزادے نے دیا تھا۔

سعودی ولی عہد کئی برسوں سے یہ کہتے آئے ہیں کہ اگر علاقائی مخالف ملک ایران جوہری طاقت حاصل کرتا ہے تو سعودی عرب بھی یہ ہتھیار تیار کرے گا۔

مارکی کی طرف سے صدر جو بائیڈن اور دیگر حکام کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے، ''میں انتظامیہ پر زور دیتا ہوں کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ مشرق وسطیٰ میں امن کی طرف پیشرفت میں سعودی عرب کو انسانی حقوق کے حوالے سے خوفناک اقدامات پر ذمہ دار ٹھہرایا جائے اور ایک جوہری طاقت بننے سے روکا جائے۔‘‘

واشنگٹن میں قائم سعودی سفارت خانے نے اس پر تبصرے کے لیے خبر رساں ادارے روئٹرز کی طرف سے کی گئی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کئی برسوں سے یہ کہتے آئے ہیں کہ اگر علاقائی مخالف ملک ایران جوہری طاقت حاصل کرتا ہے تو سعودی عرب بھی یہ ہتھیار تیار کرے گا۔تصویر: Sergei Savostyanov/Sputnik/REUTERS

امریکی ڈیموکریٹک سینیٹر ڈیوڈ مارکی نے امریکی انتظامیہ پر اس حوالے سے بھی زور دیا ہے کہ سعودی عرب کو اقوام متحدہ کی جوہری توانائی سے متعلق ایجنسی 'آئی اے ای اے‘ کے اضافی 'پروٹوکول‘ اسٹینڈرڈز کا بھی ذمہ دار ٹھہرایا جائے جس میں ایسے کسی منصوبے کی مانٹیرنگ اور انسپکشن لازمی ہوتی ہے۔

کچھ ماہرین کی  طرف سے یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ کیا وقت اور سیاسی حالات امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان معاہدے کی اجازت دیں گے جس کی بنا پر ریاض اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لائے گا۔

شاید سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ سعودی عرب نے حماس کے خلاف اسرائیل کی جنگ میں ایک مستقل اور پائیدار جنگ بندی اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے، جسے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے مسترد کر دیا ہے۔

غزہ کی جنگ کے سعودی اسرائیلی روابط پر اثرات

بائیڈن انتظامیہ کے لیے کانگریس کی منظوری کے ساتھ امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان ایک سول جوہری معاہدے اور دفاعی معاہدے کو آگے بڑھانے کا وقت کم ہوتا جا رہا ہے کیونکہ امریکہ میں رواں برس پانچ نومبر کو انتخابات ہونا ہیں اور اسی سبب ارکان پارلیمان کی توجہ انتخابی مہم چلانے پر مرکوز ہونا شروع ہو جائے گی۔

ا ب ا/ا ا (روئٹرز)