1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’کمفرٹ زون سے نکلو‘، اس سے ظالمانہ نعرہ اور کوئی نہیں!

1 مئی 2024

کسی نے سرمایہ دارانہ دور کی کیا خوب منظر کشی کی ہے، ’اگر آپ کی ملازمت آپ کو صرف اتنی آمدنی دے رہی ہے کہ آپ صرف اپنی روزانہ کی ضروریات پوری کر سکیں، تو آپ نوکری نہیں بلکہ ماضی کے غلاموں سے بھی بدتر زندگی بسر کر رہے ہیں۔‘

https://p.dw.com/p/4fNwG
DW Urdu Bloger Swera Khan
تصویر: Privat

یوم مئی اس دن کی یاد ہے کہ جب یہ تسلیم کیا گیا کہ ایک مزدور آٹھ گھنٹے کام کرے گا اور آٹھ گھنٹے اس کے اہل خانہ کے لیے ہوں گے اور باقی آٹھ گھنٹے اس کی نیند کے ہوں گے۔ کہنے والوں نے تو کہہ دیا اور ماننے والوں نے بھی خوب مان لیا لیکن آٹھ گھنٹے کی اجرت اتنی ہو کہ وہ اپنے اور اپنے اہل خانہ کی کفالت کر سکے، یہ کسی نے کہا اور نہ ہی اس کی ضرورت محسوس کی گئی۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں دہری اور تہری ملازمتیں عام ہیں۔ ایک جگہ با قاعدہ ملازمت ہوتی ہے، باقی کم از کم دو سے تین جگہ کسی نہ کسی صورت میں خدمات انجام دی جاتی ہیں تا کہ منہ زور منہگائی کے مقابل فقط دو وقت کی روٹی کا بند و بست رکھا جا سکے۔

لوگ 12 سے 16 گھنٹے تک روزگار کمانے میں جتے رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود صرف بنیادی ضروریات ہی پوری کر پاتے ہیں، کوئی ناگہانی آفت یا کوئی غمی خوشی ان کے نام نہاد بجٹ کو اتھل پتھل کر دیتی ہے۔ سیٹھ یا آجر ہر چیز کے نرخ بڑھاتا ہے لیکن اگر نہیں بڑھتی تو مزدور کی اجرت جبکہ اجرت اور اخراجات کا یہی فرق در اصل منہگائی کا اصل سبب ہے، ورنہ اگر ایک چیز 100 روپے کی ہو اور اسے خریدنے کے لیے ہماری جیب میں 200 روپے ہوں تو یہ چیز سستی قرار پائے گی، لیکن اگر 100 روپے والی چیز کے لیے گنجائش 50 روپے ہو یا 100 سے کم ہو تو یہی پیمانہ 'منہگائی' کا تعین کرے گا۔

آج سوال یہ ہے کہ ہمیشہ کی طرح منہگائی کی چکی منہ زور ہے بلکہ سچ پوچھیے تو کہیں زیادہ ہے۔ آجران اپنے ملازمین کی اجرت اس حساب سے نہیں بڑھا رہے، اسی وجہ سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ متوسط طبقے کی اکثریت دو یا دو سے زائد ملازمتیں کرنے پر مجبور ہے۔

 اس المیے کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا، سیٹھوں کی اجارہ داری ہے، ان کی جانب سے خیرات اور فلاحی منصوبوں کی خوب چرچا کی جاتی ہے لیکن کبھی یہ نہیں بتایا جاتا کہ فلاں سیٹھ اپنے کارخانے یا فیکٹری یا دفتر میں قابل قدر معاوضہ دیتا ہے، اپنے ملازمین کی صحت اور غمی خوشی کے معاملات میں سہولت دیتا ہے تا کہ کم سے کم یوم مئی کو جو آٹھ گھنٹے کام اور آٹھ گھنٹے آرام اور آٹھ گھنٹے نیند کا حق 1886 میں تسلیم کیا گیا تھا، وہ تو پورا ہو، ورنہ پھر عہد غلامی کی وہ رسم کیا بری تھی کہ جس میں انسان تاعمر غلامی میں ہوتا تھا لیکن اپنی روزی روٹی سے بے فکر ہوتا تھا۔

 کسی کی ملکیت میں تھا لیکن اپنی فکروں سے آزاد تھا۔ آج نام نہاد آزاد ملازم ہر لمحہ سرمایہ دار کا غلام ہے، ایک سرمایہ دار سے دوسرے کے پاس اور دوسرے سے تیسرے کے پاس۔ سب سے چار چار پیسے جمع کر کے اپنی روزی روٹی کرتا ہے۔ ہر لمحہ اس کا استحصال ہوتا ہے۔ اس کی کمپنی اسے ٹھیکے پر ملازم رکھتی ہے، سسٹم کو دھوکا دینے کے لیے اسے 11، 11 مہینے کے کانٹریکٹ پر رکھا جاتا ہے، جب کہ وہ برسوں سے اسی فرم میں ملازم ہوتا ہے، کوئی شنوائی نہیں۔

کیا کوئی یوم مئی پر یہ بات کرے گا کہ سرمایہ دارانہ نظام نے نا کافی تنخواہ دے کر ہمیں اپنے پیچھے دوڑایا ہے اور معیار زندگی بلند کرنے یا گزر بسر کرنے کے لائق رہنے کے لیے ہم سے زیادہ سے زیادہ محنت کرا کے ہمیں درس دیتا ہے کہ ''کمفرٹ زون‘‘ سے نکلو!

غور کیجیے تو مزدور کے لیے ''کمفرٹ زون‘‘ سے نکلنے جیسا استحصال بھرا نعرہ اور کوئی نہیں۔ یہ اس بات کا لائسنس دیتا ہے کہ تنخواہ اور محنتانہ نہیں بڑھے گا، گدھے بن کر 15-16 گھنٹے تک کی ''غلامی کرو‘‘ تا کہ دو وقت کی روٹی کھا سکو۔ کیا یہی پیغام ہے اس عالمی یوم محنت کا؟ کیا کوئی اس اہم معاملے پر اس طرح کھل کر بات کرے گا؟

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔